دینی اور دنیاوی تعلیم کا اتحاد: قرآن کی روشنی میں

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو صرف عبادات تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ قرآن مجید نے جہاں عبادات اور اخلاقیات پر زور دیا ہے، وہیں علم اور تحقیق کو بھی ایمان کا لازمی جزو قرار دیا ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ کا فرمان ہے: “علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔” (ابن ماجہ)

پہلی وحی اور علم کی اہمیت

قرآن کی پہلی وحی “اقرأ” (پڑھ) سے شروع ہوئی، جو علم کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ العلق میں فرمایا:

“پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے بنایا۔ پڑھ، اور تیرا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔” (العلق: 1-5)

یہ آیات ظاہر کرتی ہیں کہ اسلام میں علم صرف دینی تک محدود نہیں، بلکہ ہر وہ علم جو انسانیت کے لیے مفید ہو، اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

تحقیق اور غوروفکر کی قرآن میں تاکید

قرآن بار بار انسانوں کو غوروفکر، تدبر اور تحقیق کی دعوت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

“کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگ چکے ہیں؟” (محمد: 24)

“اور وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور تمہارے لیے تمہیں میں سے جوڑے بنائے، اور چوپایوں میں بھی جوڑے بنائے، اسی طرح وہ تمہیں پھیلاتا ہے۔ اس کی مخلوقات میں سے کوئی چیز بھی اس جیسی نہیں۔ وہ سب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔” (الشوریٰ: 11)

یہ آیات ہمیں سائنسی تحقیق اور کائنات کے اسرار جاننے کی ترغیب دیتی ہیں۔

دنیاوی تعلیم اور ترقی کا اسلامی تصور

مسلمانوں کی عظیم تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب انہوں نے دینی اور دنیاوی علوم کو یکجا کیا، تو وہ دنیا کے علم اور ترقی کے رہنما بنے۔ ابن سینا، الخوارزمی، ابن الہیثم، اور جابر بن حیان جیسے سائنسدانوں نے طب، ریاضی، فلکیات اور کیمیا میں انقلابی دریافتیں کیں، جن کی بنیاد قرآن کی تعلیمات تھیں۔

آج مسلمان اگر پسماندہ ہیں، تو اس کی ایک بڑی وجہ تعلیم، خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانا ہے۔ قرآن ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اللہ کی نشانیوں کو کائنات میں تلاش کریں، لیکن اگر ہم جدید علوم سے دور رہیں، تو ہم اس حکم پر عمل نہیں کر پائیں گے۔

مکمل مسلمان بننے کے لیے تحقیق ضروری

ایک سچا مسلمان صرف روایتی عقائد پر عمل کرنے والا نہیں ہوتا، بلکہ وہ علم اور عقل کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ایمان کو مضبوط بناتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:

“جن لوگوں نے ہماری آیات کو یاد کیا اور ان پر عمل کیا، وہی ہیں جو سچے ہیں۔” (البقرہ: 121)

یعنی جو لوگ غوروفکر اور تحقیق کے بغیر صرف تقلید پر چلتے ہیں، وہ قرآن کے مطابق مکمل مومن نہیں ہو سکتے۔

نتیجہ

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم حاصل کریں، تحقیق کو اپنائیں، اور قرآن کی روشنی میں سائنس، ٹیکنالوجی، معاشیات اور سماجی علوم میں بھرپور کردار ادا کریں۔ تب ہی ہم ایک مضبوط امت بن سکتے ہیں اور دنیا میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

“تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہو، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔” (آل عمران: 110)

اللہ ہمیں علم نافع عطا فرمائے اور ہمیں دین و دنیا دونوں میں کامیاب بنائے۔ آمین!

Leave a Comment