علمِ طب ایک ایسا علم ہے جو انسانی جسم کی ساخت، اس کے افعال اور بیماریوں کی شناخت، وجوہات، علامات اور علاج سے متعلق ہوتا ہے۔ اس علم کے ذریعے نہ صرف بیماریاں پہچانی جاتی ہیں بلکہ ان کا بروقت علاج بھی ممکن ہوتا ہے۔ یہ علم صحت کی حفاظت، بیماریوں سے بچاؤ، اور معاشرے کے صحت مند ارتقاء کا بھی ذمہ دار ہے۔ طب کا مقصد صرف جسمانی صحت ہی نہیں، بلکہ روحانی سکون اور اخلاقی توازن کو بھی برقرار رکھنا ہے۔ اسلام نے علم حاصل کرنے کو فرض قرار دیا۔ طب ایک ایسا علم ہے جو نہ صرف دنیاوی فلاح کا ذریعہ ہے بلکہ دینی اجر کا بھی باعث ہے، کیونکہ یہ انسانی جانوں کی حفاظت اور خدمتِ خلق سے تعلق رکھتا ہے۔
قرآنِ پاک میں انسان کی تخلیق کو اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ انسان کے جسم کی ساخت، اس کے اعضاء کا باہمی ربط، اور ان کا باقاعدہ نظام – سب کچھ اللہ کی بےمثال حکمتوں کا مظہر ہے۔ علمِ طب دراصل ان ہی حکمتوں کو سمجھنے اور ان سے سبق حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر
انسان ایک ایسا جاندار ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور کی نعمت سے نوازا ہے۔ وہ دنیا کی ہر چیز کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھتا ہے، پھر جو چیز اسے درست یا مفید معلوم ہوتی ہے، وہ اسی کو اپناتا ہے۔ اس طرح وہ ہر شے کے بارے میں ایک نظریہ، ایک عقیدہ یا سوچ بنا لیتا ہے، اور پھر اپنی زندگی اسی سوچ کے مطابق گزارنے لگتا ہے۔
لیکن ہر چیز انسان کی محدود عقل کے مطابق درست نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ایک ایسا دین، ایک ایسا مکمل نظامِ حیات نازل فرمایا جو اس کی فطرت سے مکمل ہم آہنگ ہو — اور وہ ہے اسلام۔
انسان کا جسم ایک نازک لیکن حیرت انگیز مشین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے تخلیق کیا ہے۔ جیسے کوئی انجینئر مشین بناتا ہے تو اُس کے صحیح استعمال کے اصول بھی بتاتا ہے، بالکل ویسے ہی اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور اُس کی فطری ضروریات اور حدود بھی متعین کیں۔ اسلام دراصل ایک مکمل نظامِ زندگی ہے جو انسان کی جسمانی، روحانی، ذہنی اور سماجی صحت کے تمام پہلوؤں کا خیال رکھتا ہے۔ اکثر بیماریاں اسی وقت پیدا ہوتی ہیں جب انسان فطرت سے دور ہو جاتا ہے — یعنی غلط طرزِ زندگی، بے وقت سونا جاگنا، غیر متوازن غذا، گناہوں بھری زندگی، ذہنی دباؤ اور روحانی خلا — یہ سب فطرت کی خلاف ورزی ہے۔ علاج صرف دوا سے نہیں ہوتا، بلکہ صحیح طرزِ زندگی، اللہ پر یقین اور فطرت کی طرف واپسی ہی اصل شفا کا راستہ ہے
جب انسان علم سے محروم ہو جاتا ہے، تو وہ بہت سی ایسی چیزوں کو بھی اختیار کر لیتا ہے جو نہ صرف اس کے جسم کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ اس کی روحانی سلامتی کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ لاعلمی کی یہ کیفیت اسے گمراہی کی طرف لے جاتی ہے، یہاں تک کہ اس کا عقیدہ کمزور پڑنے لگتا ہے، اور وہ حق و باطل میں فرق کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ علم کی روشنی ہی وہ ذریعہ ہے جو انسان کو اندھیروں سے نکال کر صحیح راستے کی طرف گامزن کرتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت میں “علم” کو غیرمعمولی اہمیت دی گئی ہے، کیونکہ علم ہی وہ بنیاد ہے جس پر درست عقیدہ، صحت مند جسم، پاکیزہ روح اور متوازن معاشرہ تعمیر ہوتا ہے۔
عقیدے کی کمزوری اور طبّی پہلو کا نظر انداز ہونا
یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات وہ لوگ بھی، جو قرآن و سنت کا علم رکھتے ہیں اور درست عقیدہ رکھتے ہیں، بیماری کی حالت میں کمزور پڑ جاتے ہیں اور اپنی فطرت سے ہٹنے لگتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہوں نے دین کو صرف عبادات تک محدود کر رکھا ہوتا ہے، جبکہ اسلامی تعلیما ت پورے نظام حیات کا احاطہ کرتا ہے۔
ایسے لوگ جانتے تو ہیں کہ شفاء صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ شفاء کس طرح حاصل ہوتی ہے، بیماری کیوں آتی ہے، اور اس کے اسباب کیا ہیں۔ نتیجتاً جب وہ بیمار ہوتے ہیں تو ان کے یقین میں کمی آ جاتی ہے، اور وہ اللہ پر بھروسا کرنے کے بجائے صرف دواؤں پر اعتماد کرنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جلدی صحتیاب نہیں ہو پاتے۔
علمِ طب انسان کو بیماریوں کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ دوا کس طرح کام کرتی ہے، جسم پر اس کے اثرات کیا ہوتے ہیں، اور شفاء کی حقیقت کیا ہے۔ دوا کا فارماکولوجیکل ایکشن اس بات کو واضح کرتا ہے کہ دوا بذاتِ خود شفاء دینے والی نہیں، بلکہ وہ محض علاماتی مسائل کو کم کرتی ہے، اصل شفاء تو انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظامِ قدرت کے تحت ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو اس انداز میں پیدا فرمایا ہے کہ وہ اپنی مرمت خود کر سکتا ہے، اپنے دفاعی نظام کے ذریعے بیماریوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ جب ہم طب کی اس حقیقت کو سمجھتے ہیں، تو ہمارا یقین مزید پختہ ہو جاتا ہے کہ اصل شفاء دینے والا صرف اللہ ربّ العالمین ہی ہے۔
طب کے مختلف نظام
اسلام ایک ایسا مکمل ضابطۂ حیات ہے جو صرف عبادات تک محدود نہیں بلکہ انسان کی جسمانی، ذہنی، روحانی اور سماجی زندگی کو بھی نظم و ضبط میں لاتا ہے۔ اسلام میں صحت و علاج کو بڑی اہمیت دی گئی ہے اور نبی کریم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ سے ہمیں واضح اصول ملتے ہیں:
❝ اللہ نے کوئی بیماری ایسی نہیں اتاری جس کی شفاء نہ اتاری ہو۔ ❞
(صحیح بخاری)
1. ایلوپیتھک (Allopathic Medicine)
ایلوپیتھک دوا ایک جدید، سائنسی، اور طاقتور نظامِ علاج ہے جو بیماری کی علامات کو جلدی کم کرتا ہے۔
ایلوپیتھک طب کو جدید مغربی طب بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سب سے عام اور رائج نظامِ طب ہے جو ہسپتالوں، کلینکوں اور میڈیکل کالجوں میں پڑھایا اور استعمال کیا جاتا ہے۔ اس نظام کی بنیاد سائنسی تحقیق، تجربہ، اور لیبارٹری کے نتائج پر ہے۔
علاج کا طریقہ:
بیماری کی علامات کو فوری طور پر ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے – دوائیں، سرجری، ویکسین اور تشخیصاتی ٹیسٹ (مثلًا بلڈ ٹیسٹ، ایکسرے) استعمال کیے جاتے ہیں۔ہر بیماری کے لیے مخصوص دوا دی جاتی ہے، جیسے بخار کے لیے پَیراسٹامول، انفیکشن کے لیے اینٹی بایوٹک وغیرہ۔ دوا کا Pharmacological Action یعنی جسم پر اس کا اثر سائنسی بنیاد پر سمجھایا جاتا ہے۔فوری افاقہ اور ایمرجنسی کی صورت میں بہت مفید۔
❖ خامی: دواؤں کے سائیڈ ایفیکٹس (مضر اثرات) ہو سکتے ہیں ، یہ نظام علامات کو دبا دیتا ہے، جڑ سے ختم نہیں کرتا۔ “ایلوپیتھی” لفظ یونانی زبان کے دو الفاظ “allos” (مطلب: دوسرا) اور “pathos” (مطلب: تکلیف یا بیماری) سے نکلا ہے۔ اس کا مطلب ہے: ❝ایسا علاج جو بیماری کے برعکس اثر کرے❞ یعنی اگر جسم میں کوئی تکلیف ہو، تو دوا اس کے خلاف اثر کرے۔
ایلوپیتھک دوا کیسے کام کرتی ہے؟ (Pharmacological Action)
ہر ایلوپیتھک دوا کا اپنا ایک میڈیکل فارماکولوجیکل ایکشن ہوتا ہے، یعنی وہ جسم میں مخصوص طریقے سے اثر انداز ہوتی ہے۔ دوا جسم کے ریسیپٹرز (Receptors) پر اثر کرتی ہے، یا انزائمز، ہارمونز، یا نیورونز پر اثر ڈالتی ہے۔مثلاً:
Painkiller (Analgesic) درد کے سگنل کو دماغ تک پہنچنے سے روکتی ہے Paracetamol, Ibuprofen
Antibiotic جراثیم کو مارتی ہے یا ان کی افزائش روکتی ہے Amoxicillin
Antidiabetic خون میں شکر کی مقدار کم کرتی ہے Metformi
آیورویدک :- ( Ayurvedic)
ایک قدیم ہندوستانی طریقہ علاج ہے جس کا مطلب ہے: “آیُر” = زندگی + “وید” = علم یعنی: زندگی کا علم۔
یہ نظام طب تقریباً 5000 سال پرانا ہے اور انسانی جسم، ذہن، روح اور ماحول کے درمیان توازن پر زور دیتا ہے۔ آیوروید کا ماننا ہے کہ بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ توازن بگڑ جائے- آیوروید کے مطابق ہر انسان کے جسم میں تین بنیادی توانائیاں (Doshas) ہوتی ہیں:
وات (Vata): ہوا اور خلا کا عنصر — حرکت، سانس، گردش، اعصاب
پِت (Pitta): آگ اور پانی کا عنصر — ہاضمہ، میٹابولزم، جسمانی حرارت
کف (Kapha): پانی اور زمین کا عنصر — طاقت، استقامت، جوڑوں کی روانی
ہر فرد کا ایک خاص مزاج (constitution) ہوتا ہے جسے Prakriti کہا جاتا ہے۔ جب ان دوشوں کا توازن بگڑ جاتا ہے تو بیماری جنم لیتی ہے۔
آیوروید میں علاج کا مقصد صرف علامات ختم کرنا نہیں بلکہ جڑ سے مسئلہ حل کرنا ہوتا ہے۔ اس میں ،تشخیص (Diagnosis): نبض دیکھ کر، زبان کا رنگ، آنکھیں، جسمانی علامات سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کون سا دوش بگڑا ہے۔ آیورویدک دوا مکمل طور پر قدرتی جڑی بوٹیوں سے بنتی ہیں۔ آہستہ اثر کرتی ہیں مگر جڑ سے علاج کرتی ہیں۔جسم کے قدرتی نظام کو طاقت دیتی ہیں تاکہ وہ خود بیماری سے لڑ سکے۔ چونکہ دوا قدرتی ہے، اس لیے نقصانات کم
ذہنی سکون جسم اور روح دونوں کا علاج کیا جاتا ہے
Samuel Hahnemann
Homyopatic ہومیوپیتھک طب:
طب کے مختلف نظاموں میں سے ایک ہومیوپیتھی ہے، جو یورپ میں اٹھارویں صدی کے اواخر میں ڈاکٹر سیموئل ہانیمن نے متعارف کرائی۔ یہ طریقہ علاج اس اصول پر مبنی ہے کہ جو شے کسی صحت مند انسان میں مخصوص علامات پیدا کرتی ہے، وہی شے جب انتہائی قلیل اور بار بار رقیق کی جائے، تو وہی علامات رکھنے والے مریض کی شفا کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اسے “مثل علاج بہ مثل” کا اصول کہا جاتا ہے۔ آئیے “مثل علاج بہ مثل” کے اصول کو ایک آسان مثال سے سمجھتے ہیں: فرض کریں کہ پیاز ایک صحت مند انسان میں درج ذیل علامات پیدا کرتی ہے: آنکھوں سے پانی بہنا، ناک بہنا، چھینکیں آنا،حلق میں جلن. : اب اگر کوئی مریض ایسے ہی علامات کے ساتھ آتا ہے — مثلاً زکام کی حالت میں اس کی آنکھوں سے پانی بہ رہا ہو، ناک بہ رہی ہو، چھینکیں آ رہی ہوں، اور حلق میں خراش ہو — تو ہومیوپیتھی میں اسے ایلیم سیپا (یعنی پیاز سے بنی دوا) دی جائے گی، لیکن نہایت قلیل اور بار بار رقیق کی ہوئی حالت میں۔یہی ہومیوپیتھی کا بنیادی اصول ہے:
ہومیوپیتھی میں مریض کے جسمانی، ذہنی، اور جذباتی پہلو کو ایک ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ صرف بیماری کا نام نہیں بلکہ مریض کی مکمل کیفیات، علامات کی شدت، وقت، بدلتے حالات میں علامات کی کیفیت، حتیٰ کہ خواب اور مزاج کو بھی تشخیص کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہومیوپیتھک دوا ہر مریض کے لیے جدا ہو سکتی ہے، چاہے بیماری ایک ہی ہو۔
ہومیوپیتھی کی دوائیں عموماً پودوں، معدنیات یا بعض اوقات جانوروں کے ماخذ سے بنائی جاتی ہیں۔ انہیں بار بار رقیق اور جھٹکے دے کر اس سطح پر لے آیا جاتا ہے جہاں مادّی اثرات ختم ہو جاتے ہیں اور صرف توانائی یا “اثر” باقی رہتا ہے۔ ان دواؤں کی مقدار بہت کم ہوتی ہے لیکن ان کا اثر مریض کے اندرونی نظام پر گہرائی سے ہوتا ہے۔ ان کا مقصد جسم کی حیاتیاتی قوت (اہم قوت) کو ابھارنا ہوتا ہے تاکہ وہ خود بیماری سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا کرے۔
ہومیوپیتھی میں سائیڈ ایفیکٹس نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں، کیونکہ دوائیں نہایت قلیل مقدار میں دی جاتی ہیں اور جسمانی نظام کو دبا کر نہیں بلکہ سہارا دے کر بہتر بناتی ہیں۔
علمِ طب کی تاریخی بنیاد
علمِ طب کا شمار دنیا کے قدیم ترین علوم میں ہوتا ہے۔ انسان جب سے شعور کی منزل پر پہنچا، اس نے بیماریوں کا سامنا کیا اور ان سے بچنے اور علاج کی کوششیں شروع کیں۔ قدیم تہذیبوں نے اس میدان میں اہم کردار ادا کیا اور طبی معلومات کو منظم شکل دی۔
قدیم مصری تہذیب:
مصر کے قدیم معالجین، جنہیں “طبیب” کہا جاتا تھا، دواؤں، جڑی بوٹیوں اور جراحی کے طریقوں سے واقف تھے۔ “ایبرز پیپائرس” (Ebers Papyrus) جیسی طبی تحریریں اس دور کے اعلیٰ علمی معیار کا ثبوت ہیں، جن میں 800 سے زائد دواؤں کا ذکر ملتا ہے۔
قدیم چینی طب:
چین کی قدیم تہذیب میں طب کا رشتہ فطرت، توانائی (Chi)، اور جسم کے اندرونی توازن سے جوڑا جاتا تھا۔ “اکو پنکچر”، “ہر بل میڈیسن” اور “یین یانگ” کے نظریات اسی دور سے وابستہ ہیں۔ چینی معالج جسمانی علامات کے ساتھ ذہنی و جذباتی پہلوؤں کو بھی علاج میں شامل کرتے تھے۔
ہندو تہذیب اور آیوروید:
ہندوستان میں “آیوروید” طب کا قدیم ترین نظام ہے۔ “آیور” کا مطلب زندگی اور “وید” کا مطلب علم ہے، یعنی “زندگی کا علم”۔ آیوروید میں تین بنیادی “دوش” (وات، پت، کف) کے توازن کو صحت کی بنیاد قرار دیا گیا۔
یونانی طب:
یونان میں علمِ طب کو فلسفے کے ساتھ جوڑ کر ترقی دی گئی۔ بقراط (Hippocrates) کو “طب کا باپ” کہا جاتا ہے، جنہوں نے طب کو توہمات سے نکال کر سائنسی بنیادوں پر قائم کیا۔ بعد ازاں جالینوس (Galen) نے اس علم کو مزید منظم کیا اور بدنِ انسانی کے افعال پر گہری تحقیق کی۔
اسلامی عہد میں علمِ طب کا عروج
جب اسلام کا نور دنیا پر چمکا، تو علم و حکمت کو نہ صرف روحانی نجات کا ذریعہ سمجھا گیا بلکہ انسانی فلاح کے لیے بھی ضروری قرار دیا گیا۔ قرآن و حدیث میں بارہا غور و فکر، علم، مشاہدہ اور حکمت کی تلقین کی گئی ہے۔
عباسی دور کا سنہری زمانہ:
آٹھویں سے تیرھویں صدی تک، خلافتِ عباسیہ کے دور میں علمِ طب کو عظیم فروغ حاصل ہوا۔ بغداد، دمشق اور قرطبہ کے مدارس اور شفاخانے دنیا کے علمی مراکز بن گئے۔ مسلمان اطباء نے یونانی، رومی، ایرانی اور ہندی طبی کتب کا ترجمہ کر کے تحقیق و تجربے کی بنیاد پر اسے مزید ترقی دی۔
عظیم مسلم اطباء:
- ابنِ سینا (980-1037): ان کی کتاب القانون فی الطب صدیوں تک یورپ کی جامعات میں پڑھائی جاتی رہی۔ اس میں بیماریوں، ادویات، جراحی اور حفظانِ صحت کا مفصل بیان ہے۔
- الرازی (865-925): طب و کیمیا میں مہارت رکھنے والے رازی نے چیچک اور خسرہ پر الگ الگ تحقیق کر کے دنیا کو نئی جہت دی۔
- ابنِ زہر، ابنِ رشد، علی بن عباس مجوسی جیسے اطباء نے بھی شاندار خدمات انجام دیں۔
تینوں نظاموں کا فرق
پہلو | ایلوپیتھک | یونانی | ہومیوپیتھک |
بنیاد | سائنسی تحقیق | مزاج کا توازن | Like cures like |
دوا کی نوعیت | کیمیکل، فوری اثر والی | قدرتی، جڑی بوٹیوں پر مبنی | کم مقدار میں ادویات |
اثر کی رفتار | تیز | درمیانی | آہستہ |
سائیڈ ایفیکٹس | ممکن | کم | بہت کم |