1. حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ
سورت کے آغاز میں حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کے واقعے کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو پیدا کیا اور فرشتوں کو انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ ابلیس نے تکبر کی وجہ سے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا، جس کی وجہ سے وہ راندۂ درگاہ ہو گیا۔ اس واقعے سے انسان کو شیطان کے دھوکے اور آزمائشوں سے بچنے کی تعلیم ملتی ہے۔
2. بنی اسرائیل کے واقعات
سورت البقرہ میں بنی اسرائیل کے متعدد واقعات بیان کیے گئے ہیں، جن میں سے کچھ اہم واقعات یہ ہیں:
- گائے کی قربانی: بنی اسرائیل کو ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا، لیکن انہوں نے بار بار سوالات کر کے کام کو مشکل بنا دیا۔ اس واقعے سے اللہ کے احکامات پر بلاچوں و چرا عمل کرنے کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔
- من و سلویٰ: بنی اسرائیل کو اللہ نے من (ایک قسم کا خوراک) اور سلویٰ (بٹیر) عطا کیا، لیکن وہ ناشکرے بن گئے اور مزید مطالبات کرنے لگے۔
- بت پرستی کی طرف مائل ہونا: بنی اسرائیل نے سامری کے بت کی پرستش شروع کر دی، حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام انہیں توحید کی تعلیم دے رہے تھے۔
3. حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا
سورت البقرہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے، جس میں انہوں نے اللہ سے اپنی اولاد کو مسلم بنانے اور انہیں نماز قائم کرنے والا بنانے کی درخواست کی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مکہ کو امن والا شہر بنانے کی دعا بھی کی۔
4. قبلے کی تبدیلی
مسلمانوں کو ابتدا میں بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم تھا، لیکن بعد میں اللہ نے کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا۔ اس تبدیلی کا ذکر سورت البقرہ میں کیا گیا ہے، جو مسلمانوں کے لیے ایک امتحان تھا۔
5. جہاد اور شہادت کا حکم
سورت البقرہ میں جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت اور شہادت کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو صبر اور استقامت کے ساتھ اللہ کی راہ میں لڑنے کا حکم دیا ہے۔
6. نیکی اور برائی کی تعریف
سورت میں نیکی اور برائی کی واضح تعریف کی گئی ہے۔ ایمان، نماز، زکوٰۃ، صبر، اور معاہدے پورے کرنے کو نیکی قرار دیا گیا ہے، جبکہ کفر، ظلم، اور اللہ کے احکامات سے روگردانی کو برائی بتایا گیا ہے۔
7. حلال و حرام کا بیان
سورت البقرہ میں کھانے پینے کی چیزوں کے حلال و حرام ہونے کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔ سود کو سخت حرام قرار دیا گیا ہے اور اس کی مذمت کی گئی ہے۔
8. آیت الکرسی
سورت البقرہ کی آیت 255 کو “آیت الکرسی” کہا جاتا ہے، جو اللہ کی عظمت اور قدرت کو بیان کرتی ہے۔ یہ قرآن کی سب سے عظیم آیات میں سے ایک ہے اور اس کی بڑی فضیلت ہے۔
9. آخرت کا بیان
سورت البقرہ میں قیامت، حساب کتاب، جنت اور جہنم کا تفصیلی ذکر ہے۔ ایمان والوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے، جبکہ کافروں اور منافقوں کے لیے سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
سورت البقرہ میں ان واقعات کے علاوہ بھی بہت سی نصیحتیں، احکامات، اور عبرت کی باتیں شامل ہیں۔ یہ سورت ایمان، تقویٰ، اور اللہ کے ساتھ تعلق کو مضبوط بنانے کی ترغیب دیتی ہے۔
بنی اسرائیل کے واقعات
سورت البقرہ میں بنی اسرائیل کے متعدد واقعات کا ذکر کیا گیا ہے، جو ان کی تاریخ، ان کے اعمال، اور ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے معاملات کو بیان کرتے ہیں۔ یہ واقعات نہ صرف تاریخی معلومات فراہم کرتے ہیں بلکہ ان میں بہت سی نصیحتیں اور عبرتیں بھی پوشیدہ ہیں۔ یہاں بنی اسرائیل کے کچھ اہم واقعات کو تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے:
1. گائے کی قربانی کا واقعہ
سورت البقرہ کی آیات 67 سے 73 میں بنی اسرائیل کے ایک واقعے کا ذکر ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ یہ واقعہ درج ذیل مراحل پر مشتمل ہے:
- بنی اسرائیل میں ایک قتل ہوا، لیکن قاتل کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ اللہ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ایک گائے ذبح کریں اور اس کے ایک حصے سے مقتول کے جسم کو مارا جائے، تاکہ وہ زندہ ہو جائے اور قاتل کا نام بتا دے۔
- بنی اسرائیل نے بار بار سوالات کر کے کام کو مشکل بنا دیا۔ پہلے انہوں نے کہا کہ ہمیں بتاؤ کہ گائے کیسی ہو؟ پھر اس کی عمر، رنگ، اور دیگر تفصیلات پوچھیں۔ اللہ نے ان کی شرائط کے مطابق ایک خاص گائے کی وضاحت کی۔
- آخر کار جب انہوں نے گائے ذبح کی اور مقتول کے جسم پر اس کا حصہ مارا، تو وہ زندہ ہو گیا اور قاتل کا نام بتا دیا۔
اس واقعے کی نصیحت:
- اللہ کے احکامات پر بلاچوں و چرا عمل کرنا چاہیے۔
- فضول سوالات اور تاویلات سے کام کو مشکل نہیں بنانا چاہیے۔
- اللہ کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے، وہ مردوں کو بھی زندہ کر سکتا ہے۔
2. من و سلویٰ کا واقعہ
بنی اسرائیل کو اللہ نے مصر سے نجات دلانے کے بعد صحرا میں رہنے کا حکم دیا۔ وہاں اللہ نے ان پر اپنی نعمتیں نازل کیں، جن میں “من” (ایک قسم کا خوراک) اور “سلویٰ” (بٹیر) شامل تھے۔ لیکن بنی اسرائیل نے ان نعمتوں کی ناشکری کی اور مزید مطالبات کرنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پیاز، لہسن، اور دال جیسی چیزیں چاہیں۔ اس پر اللہ نے انہیں تنبیہ کی کہ وہ کم قیمت چیزوں کے بدلے بہترین نعمتیں چھوڑ رہے ہیں۔
اس واقعے کی نصیحت:
- اللہ کی نعمتوں کی قدر کرنی چاہیے۔
- ناشکری اور بے صبری انسان کو نقصان پہنچاتی ہے۔
- اللہ کی دی ہوئی چیزوں پر قناعت کرنی چاہیے۔
3. سامری کا بچھڑا
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر اللہ سے ہم کلام ہونے گئے، تو بنی اسرائیل نے سامری کے بت (ایک بچھڑے کی مورتی) کی پرستش شروع کر دی۔ سامری نے ان کے زیورات کو پگھلا کر ایک بچھڑا بنا دیا، جو آواز نکالتا تھا۔ بنی اسرائیل نے اسے اپنا معبود بنا لیا، حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام انہیں توحید کی تعلیم دے رہے تھے۔ جب حضرت موسیٰ واپس آئے، تو انہوں نے بنی اسرائیل کو سخت ڈانٹا اور سامری کو سزا دی۔
اس واقعے کی نصیحت:
- اللہ کے ساتھ شرک کرنا سخت گناہ ہے۔
- شیطان انسان کو گمراہ کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتا ہے۔
- قیادت کے بغیر انسان آسانی سے گمراہ ہو جاتا ہے۔
4. بنی اسرائیل کا اللہ کے احکامات سے انحراف
بنی اسرائیل کو اللہ نے بہت سی نعمتیں اور احکامات دیے، لیکن وہ بار بار اللہ کے احکامات سے منحرف ہو گئے۔ انہوں نے اللہ کے انبیاء کو قتل کیا، کتابوں کو چھپایا، اور اللہ کے احکامات کو اپنی خواہشات کے مطابق بدل ڈالا۔ ان کے اس رویے کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت کی اور انہیں سخت عذاب دیا۔
اس واقعے کی نصیحت:
- اللہ کے احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے۔
- انبیاء کی نافرمانی اور انہیں نقصان پہنچانا سخت گناہ ہے۔
- اللہ کی نعمتوں کی ناشکری انسان کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔
5. بنی اسرائیل کا اللہ کے ساتھ عہد توڑنا
بنی اسرائیل نے اللہ کے ساتھ بار بار عہد کیا کہ وہ اس کے احکامات پر عمل کریں گے، لیکن ہر بار وہ اپنے عہد سے پھر گئے۔ انہوں نے اللہ کے احکامات کو اپنی خواہشات کے مطابق بدل ڈالا اور اللہ کے انبیاء کو جھٹلایا۔
اس واقعے کی نصیحت:
- اللہ کے ساتھ کیا ہوا عہد پورا کرنا ضروری ہے۔
- عہد شکنی اللہ کے غضب کو دعوت دیتی ہے۔
- اللہ کے احکامات کو اپنی خواہشات کے مطابق بدلنا گمراہی ہے۔
6. بنی اسرائیل کا اللہ کے انعامات کو فراموش کرنا
بنی اسرائیل کو اللہ نے بہت سی نعمتیں دیں، جن میں فرعون سے نجات، دریا کا پھٹنا، من و سلویٰ کا نزول، اور بادلوں کا سایہ شامل تھا۔ لیکن انہوں نے ان نعمتوں کو فراموش کر دیا اور اللہ کے احکامات سے منہ موڑ لیا۔
اس واقعے کی نصیحت:
- اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھنا اور ان کی قدر کرنا ضروری ہے۔
- ناشکری انسان کو اللہ کے قریب ہونے کی بجائے دور کر دیتی ہے۔
- اللہ کی نعمتیں یاد دہانی کا سبب ہیں کہ ہم اس کے شکر گزار بنیں۔
بنی اسرائیل کے یہ واقعات مسلمانوں کے لیے بہت سی نصیحتیں اور عبرتیں رکھتے ہیں۔ ان واقعات سے یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ کے احکامات پر عمل کرنا، اس کی نعمتوں کی قدر کرنا، اور اس کے ساتھ کیا ہوا عہد پورا کرنا ہر مومن کے لیے ضروری ہے۔
بنی اسرائیل کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بار بار دھوکہ دینے اور ان کی نافرمانی کرنے کی کئی وجوہات تھیں، جو قرآن مجید اور احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ یہ وجوہات ان کے نفسیاتی، سماجی، اور روحانی رویوں سے متعلق ہیں۔ درج ذیل ان وجوہات کی تفصیل ہے:
1. نفسانی خواہشات اور مادہ پرستی
بنی اسرائیل مادہ پرستی اور دنیاوی خواہشات میں گھرے ہوئے تھے۔ وہ اللہ کے احکامات کو اپنی خواہشات کے تابع کرنا چاہتے تھے، جس کی وجہ سے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے احکامات کو نظر انداز کرتے تھے۔
- مثال: جب انہیں من و سلویٰ جیسی نعمتیں دی گئیں، تو وہ مزید دنیاوی خواہشات (جیسے پیاز، لہسن، اور دال) کا مطالبہ کرنے لگے۔
- حوالہ: سورہ البقرہ، آیت 61:
“وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نَّصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ مِن بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا”
2. جہالت اور ضد
بنی اسرائیل میں جہالت اور ضد کا عنصر غالب تھا۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واضح احکامات کو سمجھنے کے باوجود انہیں ماننے سے انکار کرتے تھے۔
- مثال: جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا، تو انہوں نے بار بار سوالات کر کے کام کو مشکل بنا دیا۔
- حوالہ: سورہ البقرہ، آیت 67-71۔
3. شیطان کے وسوسے
شیطان نے بنی اسرائیل کو گمراہ کرنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا۔ وہ ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتا تھا، جس کی وجہ سے وہ اللہ کے احکامات سے دور ہو گئے۔
- مثال: سامری کے بچھڑے کی پرستش کرنا، جو شیطان کے وسوسے کا نتیجہ تھا۔
- حوالہ: سورہ البقرہ، آیت 51-54۔
4. ناشکری اور اللہ کی نعمتوں کو فراموش کرنا
بنی اسرائیل کو اللہ نے بے شمار نعمتیں دیں، جن میں فرعون سے نجات، دریا کا پھٹنا، من و سلویٰ کا نزول، اور بادلوں کا سایہ شامل تھا۔ لیکن وہ ان نعمتوں کی ناشکری کرتے ہوئے اللہ کے احکامات سے منہ موڑ لیتے تھے۔
- حوالہ: سورہ البقرہ، آیت 47:
“يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ”
5. انبیاء کو قتل کرنے کی عادت
بنی اسرائیل میں انبیاء کو قتل کرنے کی عادت تھی۔ وہ اللہ کے پیغمبروں کو جھٹلاتے تھے اور انہیں نقصان پہنچاتے تھے۔
- حوالہ: سورہ البقرہ، آیت 87:
“وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ”
6. عہد شکنی
بنی اسرائیل نے اللہ کے ساتھ بار بار عہد کیا کہ وہ اس کے احکامات پر عمل کریں گے، لیکن ہر بار وہ اپنے عہد سے پھر گئے۔
- حوالہ: سورہ البقرہ، آیت 83:
“وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ”
7. حسد اور تکبر
بنی اسرائیل میں حسد اور تکبر کا عنصر بھی پایا جاتا تھا۔ وہ اللہ کے انبیاء اور ان کی تعلیمات کو اپنے سے کمتر سمجھتے تھے۔
- مثال: جب انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے تورات دی گئی، تو انہوں نے اسے اپنی خواہشات کے مطابق بدل ڈالا۔
- حوالہ: سورہ البقرہ، آیت 75:
“أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ”
نتیجہ:
بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دھوکہ دینے کی وجوہات ان کے نفسانی خواہشات، جہالت، شیطان کے وسوسے، ناشکری، اور عہد شکنی پر مبنی تھیں۔ ان واقعات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ کے احکامات پر عمل کرنا، اس کی نعمتوں کی قدر کرنا، اور انبیاء کی تعلیمات کو اپنانا ہر مومن کے لیے ضروری ہے۔
بنی اسرائیل سے سبق
جی ہاں، بنی اسرائیل کے واقعات کو قرآن مجید میں بیان کرنے کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ مومنوں کو ان کی غلطیوں اور نافرمانیوں سے سبق حاصل کرنے کی ترغیب دی جائے۔ یہ واقعات ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ صرف زبانی دعوے یا رسمی طور پر مسلمان ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، بلکہ حقیقی ایمان اور عمل صالح کی ضرورت ہے۔ بنی اسرائیل کے واقعات کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو آسمانی علم (یعنی وحی اور اللہ کے احکامات) سے جوڑ کر رکھیں، ورنہ ان کا مسلمان ہونا بے معنی ہو جائے گا۔
بنی اسرائیل کے واقعات کی روشنی میں مومنوں کے لیے نصیحتیں:
1. اللہ کے احکامات پر عمل کریں
بنی اسرائیل کو اللہ نے بے شمار نعمتیں اور احکامات دیے، لیکن وہ بار بار ان احکامات سے منحرف ہو گئے۔ انہوں نے اپنی خواہشات کو اللہ کے احکامات پر ترجیح دی، جس کی وجہ سے وہ اللہ کے غضب کا شکار ہوئے۔
- نصیحت: مومنوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کے احکامات پر بلاچوں و چرا عمل کریں اور اپنی خواہشات کو اللہ کی رضا کے تابع کریں۔
- حوالہ: سورہ البقرہ، آیت 83:
“وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ…”
2. ناشکری سے بچیں
بنی اسرائیل کو اللہ نے بے شمار نعمتیں دیں، لیکن وہ ان نعمتوں کی ناشکری کرتے ہوئے اللہ کے احکامات سے منہ موڑ لیتے تھے۔
- نصیحت: مومنوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کی نعمتوں کی قدر کریں اور ہر حال میں اس کا شکر ادا کریں۔
- حوالہ: سورہ البقرہ، آیت 47:
“يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ…”
3. عہد شکنی نہ کریں
بنی اسرائیل نے اللہ کے ساتھ بار بار عہد کیا کہ وہ اس کے احکامات پر عمل کریں گے، لیکن ہر بار وہ اپنے عہد سے پھر گئے۔
- نصیحت: مومنوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کے ساتھ کیا ہوا عہد پورا کریں اور کبھی عہد شکنی نہ کریں۔
- حوالہ: سورہ البقرہ، آیت 83:
“وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ…”
4. شیطان کے وسوسوں سے بچیں
بنی اسرائیل شیطان کے وسوسوں میں آ کر گمراہ ہو گئے، جیسے سامری کے بچھڑے کی پرستش کرنا۔
- نصیحت: مومنوں کو چاہیے کہ وہ شیطان کے وسوسوں سے بچیں اور ہمیشہ اللہ کی پناہ میں رہیں۔
- حوالہ: سورہ البقرہ، آیت 51-54۔
5. انبیاء کی تعلیمات کو اپنائیں
بنی اسرائیل نے اپنے انبیاء کو جھٹلایا اور انہیں نقصان پہنچایا، جس کی وجہ سے وہ اللہ کے غضب کا شکار ہوئے۔
- نصیحت: مومنوں کو چاہیے کہ وہ انبیاء کی تعلیمات کو اپنائیں اور ان کی پیروی کریں۔
- حوالہ: سورہ البقرہ، آیت 87:
“وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ…”
6. علم اور عمل کا توازن قائم کریں
بنی اسرائیل کو اللہ نے تورات جیسی عظیم کتاب دی، لیکن انہوں نے اسے اپنی خواہشات کے مطابق بدل ڈالا۔
- نصیحت: مومنوں کو چاہیے کہ وہ علم حاصل کریں اور اس پر عمل کریں، کیونکہ بغیر عمل کے علم بے فائدہ ہے۔
- حوالہ: سورہ البقرہ، آیت 75:
“أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ…”
نتیجہ:
بنی اسرائیل کے واقعات ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ صرف زبانی دعوے یا رسمی طور پر مسلمان ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ حقیقی ایمان اور عمل صالح کی ضرورت ہے۔ مومنوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو آسمانی علم (وحی اور اللہ کے احکامات) سے جوڑ کر رکھیں، اللہ کے احکامات پر عمل کریں، ناشکری سے بچیں، اور شیطان کے وسوسوں سے دور رہیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے، تو ہمارا مسلمان ہونا بے معنی ہو جائے گا، جیسا کہ بنی اسرائیل کا حال ہوا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان واقعات سے سبق حاصل کرنے اور اپنے ایمان کو مضبوط بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!